۵ آذر ۱۴۰۳ |۲۳ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 25, 2024
اسلامی نظریاتی کونسل

حوزہ/وفاقی کابینہ میں صرف ایک خاتون مکمل وزیر ہیں بقیہ سب مرد ہیں۔ کراچی میں حال ہی میں خواتین ٹریفک پولیس کو بھرتی کیا گیا ہے لیکن انہیں چالان کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ مطالبات کے باوجود اضافہ نہیں کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلامی نظریاتی کونسل میں خاتون رکن کی عدم تقرری پر ایک شہری نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے، جس کی درخواست پر کونسل چیئرمین اور متعلقہ وزارت کو نوٹسسز جاری کر دیے گئے ہیں۔سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ آئین میں کم از کم ایک خاتون رکن مقرر کرنے کا تذکرہ ہے، جو ناکافی اور اس میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ حکومت نے آئین میں دی گئی اس نشت پر بھی کسی خاتون رکن کو نامزد نہیں کیا ہے اور کونسل اس وقت بغیر کسی خاتون رکن کے ہی چل رہی ہے۔

ایک شہری ماہم علی خان نے اپنے وکلا سالار خان ایڈوکیٹ اور زینب جنجوعہ کی وساطت سے یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی تھی، جس پر عدالت نے منگل کو حکم دیا کہ متعلقہ ادارے اپنا جواب داخل کرائیں۔ درخواست گزار کی دلیل ہے کہ یہ عدم تقرری آئین کی دفعہ دو سو اٹھائیس کے خلاف ہے ، جو کونسل میں کم ازکم ایک خاتون رکن کی تقرری کو ضروری قرار دیتی ہے۔ واضح رہے کہ کونسل کے موجودہ اراکین کی تعداد بیس ہے، جن کا تعلق مختلف مکتبہ ہائے فکر سے ہے لیکن اس میں کوئی خاتون رکن نہیں ہے۔ خواتین ارکان 'رجعت پسند‘ نہ ہوں کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ خواتین اراکین کی تعداد کم از کم تیس سے پینتیس فیصد ہونی چاہیے۔ تاہم نئے ارکان روشن خیال اور جدت پسند ہوں۔ ایم کیو ایم کی رہنما اوررکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ مذہبی رجعت پسندی نے معاشرے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ سے خواتین کا انداز فکر بھی تبدیل ہوا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں ایسی خواتین کو رکن بنایا جائے، جو روشن خیال اور جدت پسند ہوں اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو، جو مذہب کی اس طرح تشریح کریں کہ اس سے عورت دشمنی کا پہلو نہ نکلتا ہو۔ ہمارے مذہب نے عورت کو معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق دیے ہیں۔ لہٰذا جو خواتین اراکین کونسل کی رکن بنائی جائیں، ان کے اذہان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے اور کونسل میں خواتین کی تعداد پینتیس فیصد ہونی چاہیے۔‘‘ تمام اداروں میں کم نمائندگی ناقدین کا کہنا ہے کہ خواتین کی کم نمائندگی صرف اس کونسل میں ہی نہیں ہے بلکہ وہ دیگر کئی اور اداروں میں بھی نامناسب نمائندگی کا شکار ہیں۔ کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ خواتین کے ساتھ صرف اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے ہیں امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جا رہا ہے بلکہ دوسرے تمام اداروں میں بھی ان کی نمائندگی کے حوالے سے انہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس پینتیس فیصد کوٹے پر سختی سے صحیح معنوں میں عمل کیا جائے۔ کیوں کہ الیکشن کمیشن نے یہ حکم دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں عام نشستوں پر پانچ فیصد خواتین کو امیدوار نامزد کریں لیکن سیاسی جماعتیں اپنی خواتین کو ایسے حلقوں سے نامزد کرتی ہیں، جہاں سے وہ جیت ہی نہیں سکتیں۔ اسی طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں بھی خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

وفاقی کابینہ میں صرف ایک خاتون مکمل وزیر ہیں بقیہ سب مرد ہیں۔ کراچی میں حال ہی میں خواتین ٹریفک پولیس کو بھرتی کیا گیا ہے لیکن انہیں چالان کے حق سے محروم کیا گیا ہے۔‘‘ مطالبات کے باوجود اضافہ نہیں کیا گیا جماعت اسلامی کی رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں بہت سارے مسائل خواتین کے حوالے سے ہوتے ہیں، اس لیے وہاں صرف ایک خاتون رکن کی موجودگی کافی نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ڈی این اے کا مسئلہ ہو یا خواتین پر تشدد کے حوالے سے بل ہو، اسلامی نظریاتی کونسل میں بہت سارے مسائل خواتین کے حوالے سے ہوتے ہیں یا مشورے ایسے قوانین پر طلب کیے جاتے ہیں، جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح خواتین سے ہوتا ہے۔ لہذا صرف ایک رکن کی موجودگی کافی نہیں ہے بلکہ کم از کم تین اراکین وہاں پر ہونی چاہئیں۔ میں نے تعداد میں اضافے کا اس وقت بھی کہا تھا، جب 2015ء میں میں اسلامی نظریاتی کونسل کی واحد خاتون رکن منتخب ہوئی تھی اور 2018ء میں جب میں ریٹائر ہوئی تو اس وقت بھی میں نے یہی بات دہرائی لیکن افسوس کی بات ہے کہ اب تک اس تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ میں صرف حکومت سے درخواست کر سکتی ہو کہ وہ اس تعداد میں اضافہ کرے۔‘‘ 'ضروری نہیں کہ درس نظامی والی رکن بنیں‘ ان کا کہنا تھا کہ ان خواتین ارکان کا تعلق مدارس سے نہیں ہونا چاہیے، ''یہ ضروری نہیں کہ جنہوں نے درس نظامی کیا ہو یا وہ عالمہ بن گئی ہوں، تو وہی کونسل کی رکن بنیں بلکہ میرے خیال میں اسلامی نظریاتی کونسل کی خواتین ارکان ایسی ہونی چاہیے، جن کو قرآن و سنت کا علم ہو اور وہ جدید تعلیم سے بھی ہم آہنگ ہوں تا کہ وہ روایات کو بھی سمجھ سکیں اور جدید دور کے تقاضوں کو بھی سمجھ سکیں اور ان کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کریں۔

‘‘ نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ خواتین کی مناسب نمائندگی اسلامی نظریاتی کونسل میں ہونی چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کونسل میں خواتین کی نمائندگی کو فوری طور پر بڑھایا جانا چاہیے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت اس تعداد میں اس لیے اضافہ نہیں کر رہی کیونکہ اس کا رجحان رجعت پسندانہ مذہبی قوتوں کی طرف ہے۔ تاہم اس تعداد کو بڑھایا جانا چاہیے، اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ نئی ارکان جدید تعلیم سے آراستہ ہوں تا کہ وہ مسائل کو جدید علوم کی روشنی میں دیکھ سکیں۔‘‘ کونسل کا موقف اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل دو سو اٹھائیس کے تحت کونسل میں کم ازکم ایک خاتون رکن کا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بیس رکنی کونسل میں دو ججز (حاضر سروس یا ریٹائرڈ)، سات علما، ایک ماہر تعلیم اور ایک خاتون کا ہونا لازمی ہے، جب کہ بقیہ ارکان ماہرین معیشت، تعلیم، سماج اور اسلامی قانون کے ہو سکتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ کونسل کے آٹھ ارکان مئی میں ریٹائرڈ ہوئے ہیں، جن میں ایک خاتون بھی شامل تھیں، ''اب ہم نے حکومت کو آٹھ افراد کے ناموں کی تجویز دے دی ہے اور وہ ان کا تقرر کرے گی۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں قبلہ ایاز نے کہا کہ ان کے خیال میں بیس رکنی کونسل میں دو خواتین ہونی چاہیے، ''میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ خواتین کے مسائل پر صرف خواتین ہی بات چیت کر سکتی ہیں۔ مرد حضرات بھی ان مسائل پر بات چیت کر سکتے ہیں۔ علما یا دوسرے شعبوں سے بھی خواتین کو لیا جا سکتا ہے اگر وہ شرائط پر پورا اترتی ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .